Wednesday, September 28, 2016

PART: 1,2,3 : क्रमागत उन्नति ( EVOLUTION ) نظریہ ارتقا


قسط۔1.نظریہ ارتقا 



وہ لوگ جنہوں نے " نظریہ ارتقا" یا "نظریہ ڈارون" سن رکھا ہے، انہیں یہ خیال آ سکتا ہے کہ یہ تصورات صرف حیاتیات سے تعلق رکھتے ہیں اور روزمرہ زندگی میں کوئ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گی کیونکہ نظریہ ارتقا حیاتیاتی تصور سے کہیں بڑھ کر ایک ایسے بد دیانت فلسفے کے لیے ٹیک اور سہارا بنتا ہے، جس نے لاتعداد زہنوں پر حکمرانی کی ہے۔ یہ وہ فلسفہ " مادہ پرستی" ہے جو ہمارے کیوں اور کیسے وجود میں آنے کے جوابات کے بارے میں غیر حقیقی نظریات کا حامل ہے۔ اس فلسفے کی روُ سے مادہ پرستی میں سواۓ مادے کے اور کچھ بھی نہیں ہے اور مادہ ہر شے کا جوہر ہے چاہے وہ نامیاتی ہو یا غیر نامیاتی۔ اس تمہید سے آغاز کیا جاۓ تو یہ ایک ایسے خالق بزرگ و برتر کے وجود کا انکار کرتا ہے جسے اللہ کہتے ہیں۔ ہر شے کو مادے کی سطح تک لانے سے یہ تصور انسان کو ایک ایسی مخلوق میں ڈھال دیتا ہے جو صرف مادے کی طرف توجہ دے اور اخلاقی اقدار سے خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہوں منہ موڑ لے۔ یہ ان بربادیوں کی ابتدا ہے جو انسانی زندگی پر نازل ہوں گی۔ مادہ پرستی کے اثرات صرف افراد تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بلکہ مادہ پرستی ان بنیادی اقدار کو منہدم کرنے کے در پے رہتی ہے جن پر کسی ریاست اور معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے بے روح اور بے حس معاشرے کو جنم دیتی ہے جو صرف مادے کی طرف توجہ دیتا ہے۔ اس قسم کے معاشرے کے افراد چونکہ کبھی بھی مثالیت پسندانہ تصورات مثلاً حب وطن ، اپنی قوم سے محبت ، عدل و انصاف ، وفاداری، دیانتداری ، جزبہ ایثاروقربانی، عزت و توقیر یا اعلی اخلاق نہیں رکھتے۔ اس لیے جس سماجی نظام کی یہ تشکیل کرتے ہیں اس کے مقدر میں بہت جلد بکھر جانا ہوتا ہے۔ ان وجوہ کی موجودگی میں مادہ پرستی کسی قوم کی سیاسی و سماجی نظام کی بنیادی اقدار کے لیے شدید خطرات کا سبب بنتی ہے۔ 
مادی پرستی کی ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ ان نراجی اور نزاعی نظریات کو سہارا فراہم کرتی ہے جو ریاست اور اس کے لوگوں کے دوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان نظریات میں اشتراکیت جو سر فہرست ہے ، مادہ پرست فلسفے کا قدرتی و سیاسی نتیجہ ہے۔ ریاست اور خاندان جیسے مقدس تصورات کو کالعدم قرار دینے کی کوشش میں یہ ہر قسم کے علیحدگی پسندانہ کاموں کے لیے بنیادی نظریہ تشکیل دیتی ہے جو ریاست کے یکجہتی ڈھانچہ کے خلاف سرانجام دیے جا رہے ہوں۔
اکرم مارکس نے اس بات کو واضح کیا کہ نظریہ ڈارون نے مادہ پرستی کو ایک ٹھوس بنیاد فراہم کی جو اشتراکیت کے لیے بھی مضبوط بنیاد ثابت ہوئ۔ اس نے اپنی کتاب "داس کیپیٹا" کا انتساب ڈارون کے نام کرتے ہوۓ اس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ کتاب اس کا عظیم کام تصور كيا جاتا هے۔ اس کے جرمن ایڈیشن میں وه لكھتا ہے: " ایک مخلص مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لیے"۔ 
نظریہ ارتقا مادہ پرستی کی اس نام نہاد سائنسی بنیاد کو وجود بخشتا ہے کہ اشتراکی نظریے کا انحصار اس پر ہے۔ نظریہ ارتقا کو ایک حوالے کے طور پر لیتے ہوۓ نظریہ اشتراکیت اپنی صفائ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ اپنے نظریے کو معقول اور درست پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کے بانی کارل مارکس نے ڈارون کی کتاب کے لیے " نوع انسانی کا آغاز" (the origin of species ) لکھی جس نے نظریہ ارتقا کی بنیاد رکھتے ہوۓ تحریر کیا: 
"
یہ وہ کتاب ہے جس میں ہمارے نقطہ نظر کے لیے قدرتی تاريخ میں بنیاد موجود ہے" 
درحقیقت ہر قسم کے اشتراکی تصورات، جن میں مارکس کے تصورات کو اولین حیثیت حاصل ہے، اس وجہ سے مکمل طور ہر اپنی موت آپ مر چکے ہیں کیونکہ نظریہ ارتقا جو دراصل ۱۹ ویں صدی کا عقیدہ ہے اور جس پر اس مادے کی پوری عمارت کھڑی ہے وہ جدید سائنسی دریافتوں سے پوری طرح باطل قرار دیا جا چکا ہے۔ سائنس نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ وہ اس مادہ پرستانہ مفروضے کو مسلسل رد کیے جا رہی ہے۔ جو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سواۓ مادے کے کوئ اور شے وجود نہیں رکھتی اور سائنس سے اس کا رد اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ تمام جاندار کسی اعلی و برتر ہستی نے تخلیق کیے ہیں۔ 
اس سیریز کا مقصد یہ ہے کہ ان سائنسی حقائق کو سامنے لایا جاۓ جو تمام شعبوں میں نظریہ ارتقا کی تردید کرتے ہیں۔ اور اس نام نہاد " سائنس" کے در پردہ،اساسی و بنیادی اور اصل مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کیا جاۓ، جو درحقیقت ایک دغا و فریب کے سوا کچھ نہیں۔

نظریہ ارتقا قسط۔ 2

نظریہ ارتقا کی مختصر تاریخ.
ارتقا پسند کی فکر کی جڑیں بطور ایک عقیدہ اور نظریے کے عہد عتیق تک جا پہنچتی ہیں، جو تخلیق کی حقیقت سے برابر انکار کرتا رہا ہے۔ قدیم یونان میں زیادہ تر لا مزہب فلسفیوں نے ارتقا کے نظریے کا دفاع کیا۔ جب ہم فلسفے کی تاريخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ارتقا کا نظریہ بہت سے ملحدانہ فلسفوں کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتا ہے۔ 
تاہم یہ قدیم ملحدانہ فلسفہ نہیں بلکہ اللہ پر یقین کی بنیاد پر قائم ہے جس نے جدید سائنس کو جنم دینے اور اس کی ترقی میں ایک محرک کا کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے افراد جو جدید سائنس میں پہل کار تھے اللہ کی ہستی کو مانتے تھے، اور سائنس کے مطالعہ کے دوران انہوں نے کائنات کو دریافت کرنا چاہا جسے اللہ نے تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے اللہ کے قوانین کو سمجھنے اور اس کی تخلیق کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی۔ ماہرین فلکیات یا ہیت دانوں مثلاً Leonardo da Vinci کوپرنیکس ، کیپسلر اور گیلیلیو ، باباۓ قدیم نسلیات "curvier" جسے نباتات اور علم حیوانات میں پہل کار مانا جاتا ہے ، "Linnaeus" اور آئزہ نیوٹن ، جسے " وہ عظیم سائنسدان تصور کیا جاتا ہے جو کبھی اس دنیا میں آیا تھا"۔ ان سب نے سائنس کا مطالعہ نہ صرف اللہ کی ہستی پر یقین رکھتے ہوۓ کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی ایمان لاۓ کہ یہ پوری کائنات اس خالق کی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں آئ۔ (حوالہ۔ 5)
البرٹ آئن سٹائن کو ہمارے عہد کا عظیم ترین نابغہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک اور ایسا خدا پرست سائنسدان تھا جو اللہ پر یقین رکھتا تھا وہ یوں لکھتا ہے : " میں اس گہرے عقیدہ و ایمان کے بغیر ایک مستند سائنسدان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال کو ایک خیال کے زریعے یوں بیان کیا جا سکتا ہے: " سائنس بغیر مزہب کے لنگڑی ہے"۔ (حوالہ۔ 6)
جدید طبیعات کے بانیوں میں سے ایک جرمن طبیعات دان میکس پلانک نے کہا کہ ہر وہ شخص جو سنجیدگی سے سائنس کا مطالعہ کرتا ہے اسے سائنس کی عمارت کے دروازے پر ایک مختصر سا جملہ لکھا کو ملتا ہے: " یقین و ایمان کے ساتھ زندہ رہو"۔ یہ یقین و ایمان ایک سائنسدان کی اساسی و بنیادی صفت ہے۔ ( حوالہ 7)
نظریہ ارتقا اس مادہ پرستانہ فلسفے کا نتیجہ ہے جو قدیم مادہ پرستانہ فلسفوں کی بیداری نو کے ساتھ شروع ہوا۔ اور پھر ۱۹ ویں صدی میں دنیا کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ جیسا کہ میں پہلے اس طرف اشارہ کر چکا ہوں مادہ پرستی کائنات کی تشریح خالص مادہ پرستانہ عناصر سے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ چونکہ آغاز سے ہی تخلیق کائنات سے منکر ہے اس لیے یہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ دنیا کی ہر شے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان کسی تخلیق کار کے بغیر وجود میں آ گئ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ ایک حسن اتفاق تھا جس کے نتیجے میں اس نے ایج ترتیب و نظام کی صورت خود بخود پوری کر دی۔ تاہم انسانی زہن کی ساخت اس قسم کی ہے کہ وہ جہاں کہیں ترتیب و نظم دیکھتا ہے اسے کسی منظم کرنے والی ہستی کا خیال آتا ہے۔
ڈارون کے تخیل کی پیداوار:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریہ ارتقا اور جس طرح اس کا دفاع کیا جاتا ہے اسے پیش کرنے والا ایک انگریز غیر پیشہ ور نیچری یا فطرت پرست چارلس رابرٹ ڈارون تھا۔ 
ڈارون نے حیاتیات کی رسمی تعلیم کبھی بھی حاصل نہیں کی تھی۔ اسے نیچر یا فطرت اور جاندار چیزوں کے موضوع میں صرف شوقیہ حد تک دلچسپی تھی اس کی یہ دلچسپی بڑھی تو اس نے رضاکارانہ طور پر ایک مہم میں شامل ہو کر HMS. BEAGLE نامی بحری جہاز کے زریعے ۱۸۳۲ میں انگلستان سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور پانچ برس کے عرصے میں دنیا کے مختلف خطے دیکھ ڈالے۔ ڈارون مختلف جاندوروں کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا۔ بالخصوص جزائر گیلاپیگوس میں نظر آنے والی سنہری چڑیوں نے اسے بہت متاثر کیا۔ اس کے خیال میں ان کی چونچوں کا مختلف ہونا ان کے وطن یا جاۓ پیدائش کے مختلف ہونے کی وجہ سے تھا جس کے مطابق یہ مختلف شکلوں میں ڈھل گئیں۔ اس خیال کو زہن میں رکھتے ہوۓ اس نے یہ فرض کر لیا تھا کہ زندگی کا آغاز اور جانداروں کی ابتدا اسی تصور " ماحول و جگہ سے مطابقت پزیری" میں پوشیدہ ہے۔ ڈارون کے خیال میں مختلف جانداروں کو اللہ نے علیحدہ علیحدہ تخلیق نہیں کیا بلکہ ان کا ایک ہی مشترکہ جد مورث اعلی یا جد امجد تھا اور بعد میں قدرتی حالات کے نتیجے میں ایک دوسرے سے مختلف ہو گۓ۔ 
ڈارون کے اس قیاس یا بے دلیل دعوے کسی سائنسی دریافت یا تجربے پر مبنی نہ تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے بعد اس نے اسے ایک جھوٹے دعوے پر منحصر نظریے کی شکل دے دی تھی جس کے لیے اسے اپنے عہد کے مشہور مادہ پرست حیاتیات دانوں کی حمایت اور حوصلہ افزائ حاصل تھی۔ اس تصور کے مطابق افراد نے اپنے وطن اور جاۓ پیدائش کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کیا تھا اور پھر بہتر سے بہتر طور پر اپنی خوبیاں بعد میں آنے والی نسلوں کو منتقل کر دی تھیں۔ یہ سود مند اوصاف وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہوتے گۓ اور انکوں نے ایک فرد کو اس کے آباؤ اجداد سے بالکل مختلف شکل میں ڈھال دیا تھا۔ ( ان سود مند خوبیوں کے آغاز کے بارے میں اس وقت کچھ معلوم نہ تھا۔) ڈارون کی راۓ میں اس میکانیکی عمل کا نہایت ترقی یافتہ نتیجہ انسانی شکل میں سامنے آیا۔ 
ڈارون نے اس سارے عمل کو " ارتقا بزریعہ فطری انتخاب" کا نام دیا۔ اسے خیال گزرا کہ اس نے " جانوروں کی ابتدا" کا راز معلوم کر لیا ہے۔ اور یہ کہ ایک جاندار کی ابتداۓ آفرینش کسی دوسرے جاندار سے ہوئ۔ اس نے ان خیالات کا اظہار ۱۸۵۹ میں اپنی کتاب the origin of species by means of natural selection "جانداروں کی ابتدا بزریعہ فطری انتخاب" میں کیا۔ 
ڈارون یہ بات خوب جانتا تھا کہ اس کا یہ نظریہ بے شمار مسائل سے دو چار ہو گا اس نے اس کا اعتراف اپنی کتاب کے جس باب میں کیا اس ک عنوان ہے " نظریے کی مشکلات"۔ ان مشکلات کا تعلق بنیادی طور پر رکاز یا فوسل ریکارڈ سے تھا یعنی جانداروں کے ایسے پیچیدہ اعضا جنہیں مماثلت کے زریعے بیان نہیں کیا جا سکتا تھا ( مثلاً آنکھ) اور جانداروں کی جبلتیں۔ ڈارون پڑا پر امید تھا نئ دریافتوں کے زریعے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکے گا۔ مگر یہ بات بھی اسے کچھ جانداروں کے لیے نہایت غیر موزوں تشریحات پیش کرنے سے نا روک سکی۔ ایک امریکی طبیعات دان لپسن نے ڈارون کی " مشکلات " پر یوں تبصرہ کیا:
"
جانداروں کی ابتدا کے بارے میں پڑھتے ہوۓ مجھے محسوس ہوا کہ ڈارون تو خود اس کے بارے میں بہت کم یقین رکھتا تھا۔ جس طرح است اکثر پیش کیا جاتا ہے ایسا نہیں ہے۔ 
مثال کے طور پر وہ باب جس کا عنوان " نظریے کی مشکلات" ہے۔ اس میں تو خود اس کے اپنے بارے میں شکوک موجود ہیں۔ میں بطور ایک طبیعات دان کے خاص فریب میں آ گیا تھا جب میں نے اس کے تبصرے کو دیکھا کہ آنکھ کس طرح اوپر کو اٹھی ہو گی۔ ( حوالہ ۸)
اس نظریے کی تشکیل کے وقت ڈارون اپنے پہلے دور کے بہت سے ارتقا پسند حیاتیات داوں سے متاثر رہا ہو گا۔ بالخصوص فرانسیسی حیاتیات دان لامارک سے ، جس کے خیال میں جاندار اپنی زندگی میں جو اوصاف اپناتے ہیں انہیں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کر دیتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جیسے زرافہ کی گردنوں کا لمبا ہونا۔ چنانچہ ڈارون نے " حاصل کردہ اوصاف کی منتقلی" کا نظریہ استعمال کیا جسے لامارک نے ایک ایسے عنصر کے طور پر پیش کیا جو جانداروں کو ارتقائ عمل سے گزرتا ہے۔ 
لیکن سچ تو یہ ہے کہ لامارک اور ڈارون دونوں نے ٹھوکر کھوئ کیونکہ ان کے عہد میں زندگی کا مطالعہ صرف بہت قدیم ٹیکنالوجی سے نہایت ہی ناکافی سطح پر کیا جاتا تھا۔ سائنس میں جینیات اور حیاتیاتی کیمیا جیسے شعبے براۓ نام بھی موجود نہ تھے۔ اس لیے ان کے نظریات کا سارا انحصار ان کے تخیل کی قوتوں پر تھا۔ 
جس وقت ڈارون کی کتاب کی باز گشت سنائ دے رہی تھی یک آسٹریائ ماہر نباتات گریگر مینڈل Gregor Mendel نے ۱۸۴۵ میں اوصاف اور خصلتوں کی نسلاً بعد نسلاً منتقلی کے قوانین دریافت کیے۔ اس صدی کے اختتام تک اس بارے زندہ کچھ نا سنا گیا مگر ۱۹۰۰ کے ابتدائ برسوں میں مینڈل کی دریافت نے بڑی اہمیت حاصل کر لی تھی۔ یہ جینیات کی سائنس کا آغاز تھا۔ کچھ عرصے بعد جین اور لونیے(کرو موسوم ) کی ساخت دریافت کر لی گئی تھی۔ ۱۹۵۰ کی دہائ میں ڈی این ای سالمے کی اس دریافت نے جو جینی معلومات فراہم کرت ہے، نظریہ ارتقا کو بہت بڑے بحران سے دو چر کر دیا تھا۔ اس کا سبب ڈارون کی تجویز کردہ زندگی کی ناقابل یقین پیچیدگی اور ارتقائ میکانکی عمل کی باطل دلیل تھی۔ اس طرح کے انقشافات کا منطقی نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے تھا کہ ڈارون ک نظریہ ارتقا منسوخ ہو کر تاریخ کے اوراق میں وقت کی گرد کی تہہ میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہوا جس کا سب یہ تھا کہ بہت سارے حلقے اسے دہرانے ، اس کی تجدید کرنے اور اس نظریے کو بلند اٹھا کر سائنسی ہلیٹ فارم ہر رکھ دینے ہر مضر تھے۔ ن کوششوں کا بامعنی مقصد صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ہمیں یہ احساس ہو کہ نظریے کے پیچھے نظریاتی مقاصد ہیں نہ کہ سائنسی دلچسپی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
5. Dan Graves, Science of Faith Forty-Eight Biographies of Historic Scientists and Their Christian Faith, Grand Rapids, MI, Kregel Resources.
6. Science, Philosophy. And Religion Asymposium, 1941,CH.13
7. J. Je Vries, Essential of Physical Science, Wm. B. Eerdmans Pub. Co., Grand Rapids, SD 1958, p.15
8, H. S. Lipson, "A Physicist's View of Darwin's Theroy", Evolution Trends in Plants, Vol 2, no.1, 1988 p.6

نظریہ ارتقا قسط۔ 3

نظریہ ارتقا کی مختصر تاریخ.
نوڈارونیت کی جان توڑ کوششیں۔:
بیسویں صدی کے عبد اوّل میں جینیات کی دریافت سے ڈارونی نظریہ شدید بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ تاہم سائنسدانوں کا ایک گروہ جو ڈارون سے پوری پوری وفاداری کا تہیہ کر چکا تھا، اس کے حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ وہ سب مل کر ۱۹۴۱ میں امریکی جیولوجیکل سوسائٹی کے بلاۓ گۓ اجلاس میں آۓ۔ ماہرین جینیات مثلاً G.ledyard stebins اور theodosius dobzhansky اور ماہر حیوانیات مثلاً Ernstmayr اور Julian Huxley , ماہرین قدیم حیاتیات George gelord Simpson اور glen l. Jepson اور ریاضیاتی ماہرین جینیات مثلاً رونلڈ فشر اور swall right نے طویل بحث و تمحيص کے بعد بالآخر ان طریقوں پر اتفاق کیا جس سے ڈارونیت کے ساتھ " اتفاق راۓ" ہو سکتی تھی۔ ان طریقوں پر کلیدی حيثیت کے مالک اس گروہ نے ان سود مند اختلافی معاملات کے آغاز پر توجہ مرکوز کی جو جاندار نامیوں کو بتدریج ارتقائ عمل سے گزارتے تھے۔ 
یہ ایک ایسا مسلۂ تھا جس کی وضاحت خود ڈارون نہیں کر سکتا تھا اور اس نے صرف اس قدر کوشش کی تھی کہ لامارک پر بھروسہ کرتے ہوۓ کترا کر نکل جاۓ۔ اس تصور کو اب " اٹکل پچو عمل تغیر" کہا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اس نۓ نظریے کو جدید " مصنوعی نظریہ ارتقا " کا نام دیا تھا۔ اس کی تشکیل عمل تغیر کے نظریے کو ڈارون کے قدرتی انتخاب کے دعوے میں شامل کرنے سے ہوئ تھی۔ جلد ہی یہ نظریہ " نو ڈارونیت" کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور جن لوگوں نے اسے فروغ دیا وہ " نیو ڈارونیت پسند" کہلاۓ۔ 
بعد میں آنے والی دہایوں کے دوران نیو ڈارونیت کو ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کی جا سکتی تھیں۔ یہ بات پہلے سے ہی علم میں آچُکی تھی کہ " عمل تغیر" یا " اتفاقیہ تبدیلیاں" جو جاندار نامیوں کے جین میں پیدا ہوتیں وہ ہمیشہ ضرر رساں ہوتی تھیں۔ نو ڈارونیت نے تغیر پزیری کے ہزاروں تجربات کے زریعے " سود مند اور مفید عمل تغیر" کے معاملے کو اٹھانے کی کوشش کی مگر اس کی تمام کوششیں رائگاں گئیں۔ 
نو ڈارونیت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ اولین جاندار سالمے قدیم ارضی حالات کے تحت اتفاقاً وجود میں آۓ ہوں گے جیسا کہ یہ نظریہ فرض کر لیتا ہے مگر ان تجربات کا مقدر بھی وہی ناکامی رہی۔ ہر وہ تجربہ جو یہ کرنا چاہتا تھا کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آ سکتی تھی ناکام ہوا۔ امکانی تخمینہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک واحد سالمہ بھی ، جو مل کر زندگی تخلیق کرنے میں اتفاقاً وجود میں آ سکتا تھا اور ارتقا پسندوں کے خیال میں وہ خلیہ جو ان کے مفروضے کے مطابق قدیم، قابو سے باہر ارضی حالات کے مطابق اتفاقاً وجود میں آیا تھا۔ اسے بیسوں صدی کی جدید سامان سے آراستہ تجربہ گاہوں میں بھی کثیر الاجزا کل میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ 
نو ڈارونیت فوسل ریکارڈ دے بھی شکست کھا چکی ہے۔ نو ڈارونیت کے نظریے نے جن "عبوری اشکال " کا دعوہ کیا جو اس کی رو سے جاندار سالموں میں قدیم سے ترقی یافتہ جانداروں میں بتدریج ارتقا ظاہر کرتے تھیں دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں پائ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علم تشریح الاعضا کے تقابلی جائزے نے بھی یہ منکشف کیا ہے کہ ایسے جاندار جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے سے مل کر ایک نئ شکل تشکیل دی ہے ، ان کے در حقیقت مختلف خدوخال تھے جن کو علم تشريح الاعضا کی مدد سے پرکھا گیا تھا۔ اور یہ کہ وہ کبھی بھی ایک دوسرے کے آباؤ اجداد نہیں ہو سکتے تھے۔ 
لیکن نو ڈارونیت کبھی بھی ایک سائنسی نظریہ مہیں تھا۔ یہ تو ایک نظریاتی عقیدہ تھا اگر ایسا کہنا غلط نہ ہو تو یہ ایک طرح کا " مزہب" تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقا کے حمایتی اب بھی اس کا دفاع کیے جا رہے ہیں حالانکہ اس کے خلاف اس قدر ثبوت موجود ہیں۔ تاہم ایک بات ایسی ہے جس پر ان میں اتفاق راۓ نہیں ہو سکتا کہ وہ نظریہ ارتقا کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جو مختلف نمونے پیش کرتے ہیں ان میں سے صحیح کونسا ہے اور غلط کونسا۔ ان نمونوں میں سے ایک نہایت اہم وہ مبالغہ آمیز اور خلاف عقل منظر نامہ ہے جسے " تاکیدی توازن" کہتے ہیں۔ یعنی یعنی ایسا توازن جس میں کوئ مزید تبدیلی ممکن نہ ہو۔
سعی و خطا: تاکیدی توازن:
زیادہ تر سائنسدان جو ارتقا میں یقین رکھتے ہیں نو ڈارونیت کو آہستہ اور بتدریج ارتقا کے طور پر رائل کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ دہائیوں میں ایک مختلف نمونہ تجویز کیا گیا ہے جسے "تاکیدی توازن" کہتے ہیں۔ 
یہ نمونہ ڈارونیت کے یکجائ یا مرحلہ وار تصور ارتقا کو رس کر دیتا ہے اور اور اس خیال کا حامی ہے کہ ارتقا بڑی عدم تسلسل والی " جستوں" یا " پھلانگوں کے زرعی سے ظہور پزیر ہوا ہے۔
اس تصور کے پہلے واویلا کناں حمایتی ۱۹۷۰ کی ابتدائ دہائ میں سامنے آۓ۔ دو امریکی قدیم حیاتیات niles Eldedge اور Stephen Jay Gould اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ نو ڈارونیت کے نظریہ ارتقا کے دعوے فوسل ریکارڈ نے مکمل طور پر باطل قرار دے دیے تھے۔ فوسلز نے ثابت کیا کہ جاندار مانیے بتدریج ارتقا پزیر نہیں ہوۓ تھے بلکہ یہ تو اچانک نمودار ہوے تھے اور مکمل شکل میں تھے۔ نو ڈارونیت پسند تو اس دلی توقع سے زندہ تھے۔۔۔۔ اب بھی انہیں یہی امید ہے کہ وہ عبوری شکلیں جو گم ہو گئ تھیں ایک روز تلاش کر لی جائیں گی۔ اس بات کا احساس کرتے ہوۓ کہ یہ امید بے بنیاد تھی ایکڈریج اور گولڈ نے پھر بھی ارتقائ عقیدہ ترک نہیں کر سکتے تھے ، اسی لیے انہوں نے نیا نمونہ پیش کیا جو " تاکیدی توازن" کے نام سے مشہور ہوا۔ دعوی یہ ہے کہ ارتقا معمولی تغیرات کے نتیجے میں مہیں بلکہ اس کا وجود تو اچانک اور بڑی تبدیلیوں کا مرہون منت تھا۔ 
یہ نمونہ کیا تھا، ایک آداب تھا، ایک فریب نظر تھا۔ مثال کے طور پر یورپی ماہر قدیم حیاتیات O.H.SHINDEWOLD جس نے ایلڈرِج اور گولڈ کے لیے راستہ ہموار کیا۔ دعوی کیا کہ دنیا کا پہلا پرندہ مگر مچھ کے انڈے سے پیدا ہوا جو کسی " بڑے عمل تغیر" کا نتیجہ تھا۔ یعنی کسی یہ کسی بڑے " ناگہانی اور غیر متوقع" تغیر کے نتیجے میں کسی جینی ساخت میں ظہور پزیر ہوا کو گا۔ ( حوالہ۔ ۱۰)۔ اسی نظریے کے مطابق زمین پر رہنے والے کچھ جانور قوی ہیکل وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہو گۓ ہوں گے اور ایسا اچانک اور مکمل عمل تغیر یا قلب ماہیت سے ہوا ہو گا۔ یہ تمام دعوے جینی، حیاتیاتی طبعیاتی حیاتیاتی کیمیائ قوانین کی مکمل طور پر تردید کرتے ہیں۔ یہ اگنے سائنسی ہیں جتنی کہ مینڈکوں کے بارے میں جادو بھری کہانیاں جن میں مینڈک شہزادوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس بحران سے مایوس ہو کر جس سے ڈارونیت پسندانہ دعوی دوچار تھا کچھ ارتقا پسند ماہرین قدیم حیاتیات نے اس نظریے کو گلے لگا لیا حالانکہ یہ نظریہ خود نو ڈارونیت کی نسبت زیادہ اوٹ پٹانگ تھا۔ :)
اس نمونے کا واحد مقصد فوسل ریکارڈ میں پاۓ جانے والے ان وقفوں کے لیے جواز پیش کرنا تھا جو نو ڈارونیت پسندانہ نمونہ پیش نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم یہ بات اپنے اندر بمشکل کوئ دلیل و استدلال رکھتی ہے کہ فوسل ریکارڈ کے درمیانی وقفوں کے لیے جواز پیش کرنے کی کوشش میں اسے پرندوں کے ارتقا میں تلاش لیا جاۓ اور اس کے ساتھ دعوی یہ کیا جاۓ کہ " ایک پرندہ اچانک مگر مچھ کے انڈے سے پھدک کر باہر نکل آیا تھا"۔ اس لیے کہ ارتقا پسندوں کے اپنے اس اعتراف سے جانداروں کی ایک قسم کا دوسری قسم کے جانداروں میں ارتقا پانا جینی حقائق میں ایک بڑے اور مفید تغیر کے بغیر ممکن نہیں۔ تاہم کوئ جینی تبدیلی خواہ وہ جس قسم کی بھی ہو نہ تو جینی حقائق و علم کو بہتر بناتی ہے اور نہ اس میں نئ معلومات کا کچھ اضافہ کرتی ہے۔ یہ تبدیلیاں تو جینی حقائق کو ابتد کرتی ہیں پس یہ " اجتماعی تبدیلیاں" جن کا تصور منظم توازن والے نمونے نے کیا جینی حقائق میں صرف مجموعی یا " بڑی" تخفیف یا نقائص پیدا کریں گے۔ 
مزید برآں یہ کہ " منظم توازن " کا نمونہ تو پہلے ہی قدم پر گر کر ڈھیر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ زندگی کی ابتدا کے بارے میں سوال کا جواب دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ یہی وہ سوال بھی ہے جو نو ڈارونیت پسندانہ نمونے کی آغاز ہی میں تردید کر دیتا ہے۔ چونکہ ایک واحد لحمیہ بھی اتفاقاً پیدا نہیں ہوا اس لیگ یہ بحث کہ کیا وہ مانیے جو ان کھربوں لحمیوں سی بنے کسی " پابند وقت" کے اندر یا بتدریج ایک ارتقا سے گزرے ہوں گے ، لغو اور بے معنی سی لگتی ہے۔ 
آئندہ سیریز میں ہم نو ڈارونیت پسندانہ نمونے کے دو خیالی میکانکی عمل پہلے زیر جائزہ لائیں گے اور اس کے بعد ہم زندگی کی ابتدا کے بارے میں سوال کرین بیمے جو اس نظریے کو باطل قرار دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے قبل آپ کو یہ یاد دلانا مفید ہو گا کہ جو حقیقت ہر مرحلے پر ہمارے سامنے آۓ گی وہ یہ ہے کہ ارتقائ منظر نامہ ایک جادو بھری کہانی ہے، ایک فرضی و خیالی داستان ، ایک فریب جو مکمل طور پر حقیقی دنیا اے مختلف ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جو پچھلے ۱۴۰ برسوں سگ دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم ان حالیہ سائنسی دریافتوں کے ممنون ہیں کن کی وجہ سے اس کا مسلسل دفاع ممکن ہو گیا ہے۔ والسلام 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات۔ 
Steven M. Stanley, Macro evolution: Pattern and Process, San Francisco: W. H. pp. 35, 159

PART : 4 : क्रमागत उन्नति ( EVOLUTION ) نظریہ ارتقا


نظریہ ارتقا قسط۔ 4




نو ڈارونی نمونہ جسے ہم آج نظریہ ارتقا کا" اصل دھارا" سمجھتے ہیں اس بات کو زیر بحث لاتا ہے کہ زندگی دو فطرت پسندانہ میکانکی عملوں سے بتدریج گزر کر ای ہے: " فطری انتخاب" اور " عمل تغیر".

فطری انتخاب:


فطرت کا ایک عمل ، قدرتی انتخاب ڈارون سے پہلے ماہرین حیات کے علم میں تھا۔ انہوں نے اسے " ایک ایسا میکانکی عمل بتایا جو جاندار کو کسی بگاڑ اور خرابی سے گزرے بغیر غیر متبدل رکھتا ہے"۔ ڈارون وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ دعوہ کیا کہ اس میں ارتقائ قوت موجود ہے اور پھر اس نے اس اپنے مکمل نظریے کی بنیاد اسی دعوے پر اٹھائ۔ جو نام اس نے اپنی کتاب کو دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کئ فطری انتخاب تو ڈارون کے نظریے کی بنیاد تھا۔ کتاب کا نام ہے " جانداروں کا نقطہ آغاز بزریعہ فطری انتخاب"۔ 
تاہم ڈارون کے عہد سے لے کر اب تک کوئ بھی ثبوت ایسا نہیں مل سکا جس نے سامنے آ کر یہ ظاہر کیا ہو کہ فطری انتخاب جاندار چیزوں کو ارتقائ عمل سے گزارتا ہے۔ کولن پیٹرسن جو انگلستان کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں ایک سینئیر ماہر قدیم حیاتیات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نامور ارتقا پسند بھی ہے اس بات پر زور دیتا ہے کہ فطری انتخاب کو کبھی بھی اس طرح تصور نہیں کیا گیا کہ یہ کوئ ایسی قوت رکھتا ہے کہ اس سے چیزیں ارتقائ عمل سے گزرنے لگتی ہوں۔ وہ لکھتا ہے:
"
آج تک کوئ بھی فطری انتخاب کے میکانکی عملوں کے زریعے جاندار پیدا نہیں کر سکا۔ نہ کوئ اس کے قریب تک بھی آیا ہے اور نو ڈارونیت میں جو حالیہ دلائل ملتے ہیں ان کا تعلق اسی سول سے ہے" (حوالہ ۱۱)
فطری انتخاب کا موقف ہے کہ وہ جاندار چیزیں جو اپنی جاۓ پیدائش کے قدرتی مزاج سے زیادہ موافقت رکھتی ہوں وہ اولاد کے زریعے زندہ رہیں گی اور جو ناموافق کوں گی وہ مٹ جائیں گی۔ مثال کے طور ہر ہرنوں کے ریوڑ میں جو کہ جنگلی جانوروں سے گھرے ہوۓ ہیں صرف وہ ہرنیں بچیں گی جو زیادہ تیز دوڑ سکتی ہیں۔ لیکن قطع نظر اس بت کے کہ یہ عمل کب تک جاری رہتا ہے یہ ان ہرنوں کو دوسرے جانور میں تبدیل نہیں کر دے گی۔ ایسی ماہیت قلبی ممکن نہیں ہو گی۔ ہرن ہمیشہ ہرن ہی رہیں گے۔ 
جب ہم ان چند مشہور واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جنہیں ارتقا پسندوں نے فطری انتخاب کی مشاہدہ میں آنے والی مثالوں کے طور پر پیش کیا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہے۔

صنعتی انقلاب اور سیاہ رنگ کے پروانے:

یہ ۱۹۸۶ کی بات ہے کہ Douglas futuyma نے ایک کتاب " حیاتیات ارتقا" لکھی جسے نظریہ ارتقا کو فطری انتخاب کے زریعے نہایت واضح انداز میں سمجھانے کا ایک قابل قبول زریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس مثال میں انگلستان میں صنعتی ترقی کے آغاز کے آس پاس مانچسٹر کے قرب و جوار میں درختوں کی چھال کا رنگ کافی ہلکا تھا. اس وجہ سے سیا رنگ کے پروانوں کو جو درختوں پر بیٹھتے تھے پرندے آسانی سے دیکھ لیتے اور انہیں اپنی خوراک بنا لیتے تھے . یوں ان پروانوں کے زندہ بچ رہنے کا امکان بوہت کم رہ جاتا تھا. پچاس برس بعد فضائی آلودگی کے باعث درختوں کی چھال سیاه ہو گئی تھی اور اس مرتبہ ہلکے رنگ کے پروانے زیادہ شکار ہوئے . نتیجہ یہ نکلا کے ہلکے رنگ کے پروانوں کی تعداد کم ہو گئی جبکے سیاه رنگ کے پروانے تعداد میں زیادہ ہو گے. اس لیے موخرالذکر آسانی کے ساتھ نظر نہیں آتے تھے. ارتقا پسندوں کے ہاں اسے اپنے نظریے کے لیے ایک بڑے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. دوسری طرف یہ ارتقا پسند تو دراصل کھڑکیوں میں سجے ہوئے سامان فروخت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور کنی کتراتے ہیں جب وو یہ زاہر کرتے ہیں کے ہلکے رنگ کے پروانے کس طرح ارتقائی عمل سے گزر کر سیاہ رنگ کے پروانوں میں تبدیل ہو گے اور وو بھی اتنے کم عرصہ میں.

تاہم یہ بات بلکل واضح ہے کے اس صورتحال کو کسی بھی طور پر نظریہ ارتقا کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا. اس لیے کے فطری انتخاب کسی بھی نی چیز کو پیدا نہیں کرتا جو پہلے سے موجود نہ ہو. سیاہ رنگ کے پروانے صنعتی انقلاب سے پہلے بوہت بڑی تعداد میں موجود تھے. صرف پروانوں کی موجودہ قسم میں سے کچھ تعداد تبدیل ہوی ہو گی. نہ تو ان پروانوں کے اوصاف تبدیل ہوئے تھے نہ ان کے نامیاتی جسموں کے حصے جو ارتقائی عمل سے ان کو الگ شکل و صورت میں ڈھل جانے میں مدد دیتے. یہ بلکل مختلف جینی پروگرام ہے جس میں پرندے کے طبیاتی اوصاف کے حقائق شامل کرنے ہوں گے.
مختصر یہ کے فطری انتخاب میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی کے جس سے ایک جاندار نامے میں ایک زدہ نامیاتی جسم کا ایک حصہ شامل کر دیا جاے ، ایک نکل دیا جاے یا نامیے کو تبدیل کر کے ایک نی جاندار شے بنا دی جآیے.یہ اس تصویر کے بلکل برعکس ہے جسے ارتقا پسند افسوں کے ذریعے بناتے ہیں. یہ سب سے "بڑا ثبوت" تھا جو ڈارون کے عہد میں پیش کیا گیا تھا، انگلستان سیاہ پروانوں کے اس " صنعتی انقلاب" میں ایک خاص کردار ادا کرنے سے زیادہ کوئی اور پیشرفت نہ کر سکا.
کیا فطری انتخاب الجھاؤ کی وضاحت کر سکتا ہے؟

ایسی کوئی بات نہیں کے فطری انتخاب نظریہ ارتقا کی مدد کرتا ہے کیونکے یہ میکانکی عمل نہ تو کسی جاندار کے جینی حقائق میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے بہتر بنا سکتا ہے. نہ یہ جاندار کی قلب ماہیت کر کے اسے کسی دوسرے جاندار میں تبدیل کر سکتا ہے. مثلا یہ کے کسی ستا را مچھلی کو مچھلی میں بدل دے یا مچھلی کو مینڈک بنا دے مینڈک کو کچھوے میں یا کچھوے کو پرندے میں تبدیل کر دے.

منظم توازن کا سب سے بڑا حمایتی Gouldاس فطری انتخاب کے تعطل کو توڑنے کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے :

ڈارونیت کی روح اور جوہر اس واحد جملے میں پای جاتی ہے ، " فطری انتخاب ارتقائی تبدیلی کی تخلیقی قوت ہے ". کسی کو بھی اس سے انکار نہیں کے فطری انتخاب ناقص یا نا اہل کو ختم کرنے میں منفی کردار ادا کرے گا. ڈارونی نظریات یہ چاہتے ہیں کے یہ موزوں اور اہل کی تخلیق بھی کرے. (حوالہ ١٢)
چند مزید گمراہ کن طریقوں میں سے ایک جسے ارتقا پسند استعمال کرتے ہیں فطری انتخاب کے سلسلے میں ہے. وہ اس میں کوشش کرتے ہیں کے اس میکانکی عمل کو باشعور نمونہ ساز کے طور پر پیش کریں. تاہم فطری انتخاب میں کوئی شعور اور آگہی نہیں ہوتی. اس میں وہ ارادہ و نیت نہیں ہوتی جو یہ فیصلہ کر سکے کے کسی جاندار شے کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے. ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے فطری انتخاب حیاتیاتی نظاموں اور ان نامیاتی اجسام کی وضاحت نہیں کر سکتا جن میں " ناقابل تخفیف الجھاؤ" پایا جاتا ہے. یہ نظام اور نامیاتی اجسام بوہت سے حصوں کے تعاون سے بنتے ہیں اور وہ کسی کام کے نہیں رہتے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی غائب ہو یا اس میں کوئی نقص ہو. مثال کے طور پر انسانی آنکھ اس وقت تک کام نہیں کرتی جب تک یہ اپنے اجزا کے ساتھ موجود نہ ہو. اس لیے وہ ارادہ یا نیت جو ان تمام حصوں یا اجزا کو یکجا کرتی ہے اس قابل ہونی چاہیے کے وو مستقبل کو پیشگی بنا لے اور اس کا مقصود براہ راست وہ فائدہ ہو جسے آخری مرحلے میں حاصل کیا جاتا ہے. چونکے فطری عمل شعور اور ارادے سے عاری ہوتا ہے اس لیے یہ اس قسم کا کوئی کام نہیں کر سکتا. یہ حقیقت نظریہ ارتقا کی بنیادیں بھی منہدم کر دیتی ہے. ڈارون بھی فکر مند تھا کہ : ' اگر یہ ثابت کیا جا سکا کے کوئی بھی زندہ نامیاتی جسم موجود ہے، جسے ممکنہ حد تک بیشمار، اوپر تلے معمولی ردوبدل کے ساتھ تشکیل نہیں کیا جا سکتا تھا، تو میرا نظریہ بلکل مکمل طور پر تعطل کا شکار ہو جا یے گا." (حوالہ ١٣)
فطری انتخاب کسی جاندار شے میں سے صرف مسخ شدہ. کمزوری یا نا موزوں کا انتخاب کرتا ہے. یہ نیے جاندار پیدا نہیں کر سکتا، نہ نی جینی حقیقت کو جنم دیتا ہے اور نہ ہی نیے زندہ نامیاتی اجسام پیدا کرتا ہے. یعنی یہ ارتقائی عمل کے ذریعے کوئی شے نہیں بنا سکتا. ڈارون نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہ کر کیا: " فطری انتخاب اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک موزوں تغیرات کو ظہور پذیر ہونے کا موقع نہیں ملتا" ( حوالہ ١٤). یہی وجہ ہے نو ڈارونیت کو عمل تغیر کو فطری انتخاب کے بعد بلند مقام دینا پڑا جسے "مفید اور سود مند تبدیلیوں کا سبب" قرار دیا گیا. تاہم جیسا کے ہم دیکھیں گے کے عمل تغیر صرف " مضر تبدیلیوں کا سبب" ہو سکتا ہے

بینجامن  مہر 

PART : 6 क्रमागत उन्नति ( EVOLUTION ) نظریہ ارتقا


نظریہ ارتقا قسط۔ 6



فوسل ریکارڈ ارتقا کو مسترد کرتا ہے۔ 

پارٹ 1 

سدا گم شدہ کڑیاں

نظریہ ارتقا کے مطابق ہر جاندار شے اپنے کسی پیشرو سے وجود میں آئی ہے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں موجود کوئی جاندار شے کسی اور شے میں تبدیل ہو گئی اور اس طرح سے تمام جاندار وجود میں آۓ. اس نظریہ کی رو سے یہ قلب ماہیت بتدریج آگے بڑھتی ہے اور یہ عمل کروڑوں برسوں سے جاری ہے.
اگر یہ بات اس طرح تھی تو بوہت سے جاندار وسطی زمانے میں تسلسل برقرار رکھنے کے لیے موجود رہے ہوں گے اور قلب ماہیت کے طویل عرصہ کے اندر زندہ رہے ہوں گے.

مثال کے طور پر نصف مچھلی اور نصف کوئی رینگنے والا جانور ماضی میں ضرور زندہ رہے ہویے ہوں گے جن میں رینگنے والے جانداروں کی خصوصیات پای جاتی ہوں گی. یا ایسے رینگنے والے پرندے موجود رہے ہوں گے جن میں پرندوں کے اوصاف کے علاوہ بوہت سے رینگنے والے جانداروں کے اوصاف بھی پا
ۓ جاتے ہوں گے. ارتقا پسند اس خیالی مخلوق کی طرف اشارہ کرتے ہوے ان پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو "عبوری اشکال" کا نام دیتے ہیں کے وہ ماضی میں ضرور زندہ تھے.
اگر یہ جانور فی الموقع موجود تھے تو ان کی تعداد اور اقسام کروڑوں میں انہی اربوں میں ہو گی. زیادہ اہم بات یہ ہے کے اس عجیب و غریب مخلوق کی باقیات کو فوسسل ریکارڈ میں موجود ہونا چاہئیے تھا. ضروری تھا کے ان عبوری شکلوں کی تعداد موجودہ جانوروں کی قسموں سے بھی زیادہ ہوتی اور ان کی باقیات دنیا بھر میں پای جانی چاہئیے تھیں. ڈارون اپنی کتاب
the origion of species میں اس بات کا تذکرہ یوں کرتا ہے:

" اگر میرا نقطہ صحیح نکل آیا تو ثابت ہو جا یے گا کے وسطی عرصے کی لاتعداد قسمیں جو ایک ہی گروہ کے جانداروں کو ایک دوسرے کے بہت قریب لاتی ہیں یقینا وجود رکھتی تھیں..... بعدازاں ان کی موجودگی گا ثبوت صرف باقیات میں تلاش کیا جا سکے گا. حوالہ 

ڈارون خود بھی اس قسم کی عبوری شکلوں کی عدم موجودگی سے آگاہ تھا. اسے تواقع تھی کے وو مستقبل میں مل جائیں گی. اپنی اس توقع کے باوجود اسے یہ احساس ہوا کے اس کے مسلے کا سب سے بڑا سنگ راہ عبوری شکلوں کی عدم موجودگی تھی. اس لیے اس نے اپنی مذکورہ کتاب میں درج زیل باب لکھا: " نظریے کی مشکلات".
.... ایسا کیوں ہے کے اگر کچھ جانداروں کا وجود دوسے جانداروں کا مرہون منت ہے اور ایسا عمدہ مدارج ارتقا سے ہوا ہے تو ہم ہر کہیں لاتعداد عبوری اشکال کیوں نہیں دیکھتے؟ تمام فطرت جانداروں کی بجائے جیسا کے ہم انہیں دیکھتے ہیں ، کے ان کی خوب تشریح ہوئی ہے ایک ابتری اور پراگندگی کا شکار کیوں نہیں ہے؟ لیکن جیسا کے اس نظریے کے ذریعے لا تعداد شکلوں کو موجود ہونا چاہئیے تھا مگر ہم انہیں ان گنت تعداد میں زمین کی بالائی سطح کے اندر پاؤں گاڑے کیوں نہیں دیکھتے؟...... لیکن درمیانی خطے میں، جس میں زندگی کی درمیانی حالتیں پائ جاتی ہیں ہم درمیانی انواع کو ایک دوسرے میں پیوست کیوں نہیں پاتے؟ میں اک طویل عرصا تک اس مشکل کا سامنا کرتا رہا. حوالہ 

ڈارون ایک ہی جواز پیش کر سکتا تھا جس کے زریعے اس کا جواب دیا جا سکتا تھا. وہ تھی یہ دلیل کے اب تک دستیاب فوسسل ریکارڈ ناکافی تھا.اس نے دعوا کیا کے جب فوسسل ریکارڈ کا مفسسل مطالع ہو جاے گا تو غایب اور گم کڑیاں مل جایں گی.

ڈارون کی اس پیشگوئی میں یقین رکھتے ہوے ارتقا پسند فوسسل کی تلاش کرتے رہے ہیں. انہوں نے دنیا بھر ميں انیسویں صدی کے وسط سے گم شدہ کڑیاں کھود کر نکلالنے کی کوشش شروع کر دی تھی. ان کی کوششوں کے باوجود اب تک کوئی عبوری شکلیں پردہ اخفا سے نکل کر سامنے نہیں آئیں. کھدائی کے ذریے نکلے گیے تمام فوسلز سے پتا چلتا ہے کے ارتقا پسندوں کے عقاید کے برعکس زندگی زمین پر اچانک نمودار ہوی اور یہ اپنی مکمل شکل میں تھی. ارتقا پسندوں نے اپنے اسی نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش کے دوران بے خبری میں اس نظریے کو موت کے حوالے کر دیا ہے.

ایک مشہور برطانوی قدیم حیاتیات
DEREK V . AGAR ارتقا پسند ہونے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے. اس کا کہنا ہے:
فوسسل ریکارڈ ثابت کرتا ہے کے زندگی کی عبوری انواع کبھی موجود تھی ہی نہیں. ارتقا سرے سے ناپید رہا ہے اور زندگی اپنی تمام انواع میں علحدہ علیحدہ اور کامل سورتوں میں تخلیق کی گئی تھی. یہ سوال اٹھتا ہے کے اگر ہم فوسسل ریکارڈ کا مفسسل جایزہ لیں، خواہ وو مختلف درجے کی ہو یا جانداروں کی سطح پر ، ہم بار بار اس نتیجے پر پوھنچتے ہیں کے ارتقا کا عمل بتدریج نہیں ہوا بلکے ایک گروہ دوسرے کے بل بوتے پر اچانک دھماکہ خیز انداز میں پیدا ہوا. حوالہ 

ایک اور نظریہ ارتقا پسند ماہر قدیم
MARK CZARECKI کا تبصرہ کچھ یوں ہے:

" نظریہ ارتقا کو ثابت کرنے میں حائل برا مثلہ فوسسل ریکارڈ کا رہا ہے، یعنی صفحہ ہستی سے مٹ جانے والے جانداروں کے زمین کی ارضیاتی چٹانوں پر محفوظ شدہ نقوش. اس ریکارڈ نے ڈارون کے قیاس پر مبنی درمیانی تغیرات کے نشان کو کبھی ظاہر نہیں کیا. اس کے برعکس جاندار اچانک نمودار ہوتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور اس بے قاعدگی نے تخلیقی استدلال کے لیے آتش گیر مادے کا کام کیا ہے کے ہر جاندار کی تخلیق خدا نے کی ہے". حوالہ
انھیں گمشدہ عبوری کڑیوں کے مستقبل میں مل جانے کے اس انتظار سے بھی واسطہ تھا جو عبث اور بے سود تھا، جیسا کے گلاسگو یونیورسٹی کے قدیم حیاتیات کے ماہر ایک پروفیسر
T. NEVILLE GEORGE نے اس بارے میں اظھار خیال کرتے ہوے کہا:

" فوسسل ریکارڈ کے دامن ہونے پر مزید معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی قطعا ضرورت نہیں. یہ کچھ حوالوں سے تقریبا حد دسترس سے باہر تک بڑا متمول ہے اور تلاش و دریافت یکجہتی و ہم آہنگی سے کہیں آگے نکل گئی ہے ....... تاہم فوسل ریکارڈ مسلسل زیادہ تر گمشدہ کڑیوں سے تشکیل پا رہا ہے. حوالہ

بینجامن مہر