نظریہ ارتقا قسط۔ 6
فوسل ریکارڈ ارتقا کو مسترد کرتا ہے۔
پارٹ 1
سدا گم شدہ کڑیاں
نظریہ ارتقا کے مطابق ہر جاندار شے اپنے کسی
پیشرو سے وجود میں آئی ہے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں موجود کوئی جاندار شے
کسی اور شے میں تبدیل ہو گئی اور اس طرح سے تمام جاندار وجود میں آۓ. اس نظریہ کی رو سے یہ
قلب ماہیت بتدریج آگے بڑھتی ہے اور یہ عمل کروڑوں برسوں سے جاری ہے.
اگر یہ بات اس طرح تھی تو بوہت سے جاندار وسطی زمانے میں تسلسل برقرار رکھنے کے لیے موجود رہے ہوں گے اور قلب ماہیت کے طویل عرصہ کے اندر زندہ رہے ہوں گے.
اگر یہ بات اس طرح تھی تو بوہت سے جاندار وسطی زمانے میں تسلسل برقرار رکھنے کے لیے موجود رہے ہوں گے اور قلب ماہیت کے طویل عرصہ کے اندر زندہ رہے ہوں گے.
مثال کے طور پر نصف مچھلی اور نصف کوئی رینگنے والا جانور ماضی میں ضرور زندہ رہے ہویے ہوں گے جن میں رینگنے والے جانداروں کی خصوصیات پای جاتی ہوں گی. یا ایسے رینگنے والے پرندے موجود رہے ہوں گے جن میں پرندوں کے اوصاف کے علاوہ بوہت سے رینگنے والے جانداروں کے اوصاف بھی پاۓ جاتے ہوں گے. ارتقا پسند اس خیالی مخلوق کی طرف اشارہ کرتے ہوے ان پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو "عبوری اشکال" کا نام دیتے ہیں کے وہ ماضی میں ضرور زندہ تھے.
اگر یہ جانور فی الموقع موجود تھے تو ان کی تعداد اور اقسام کروڑوں میں انہی اربوں میں ہو گی. زیادہ اہم بات یہ ہے کے اس عجیب و غریب مخلوق کی باقیات کو فوسسل ریکارڈ میں موجود ہونا چاہئیے تھا. ضروری تھا کے ان عبوری شکلوں کی تعداد موجودہ جانوروں کی قسموں سے بھی زیادہ ہوتی اور ان کی باقیات دنیا بھر میں پای جانی چاہئیے تھیں. ڈارون اپنی کتاب the origion of species میں اس بات کا تذکرہ یوں کرتا ہے:
" اگر میرا نقطہ صحیح نکل آیا تو ثابت ہو جا یے گا کے وسطی عرصے کی لاتعداد قسمیں جو ایک ہی گروہ کے جانداروں کو ایک دوسرے کے بہت قریب لاتی ہیں یقینا وجود رکھتی تھیں..... بعدازاں ان کی موجودگی گا ثبوت صرف باقیات میں تلاش کیا جا سکے گا. حوالہ
ڈارون خود بھی اس قسم کی عبوری شکلوں کی عدم موجودگی سے آگاہ تھا. اسے تواقع تھی کے وو مستقبل میں مل جائیں گی. اپنی اس توقع کے باوجود اسے یہ احساس ہوا کے اس کے مسلے کا سب سے بڑا سنگ راہ عبوری شکلوں کی عدم موجودگی تھی. اس لیے اس نے اپنی مذکورہ کتاب میں درج زیل باب لکھا: " نظریے کی مشکلات".
.... ایسا کیوں ہے کے اگر کچھ جانداروں کا وجود دوسے جانداروں کا مرہون منت ہے اور ایسا عمدہ مدارج ارتقا سے ہوا ہے تو ہم ہر کہیں لاتعداد عبوری اشکال کیوں نہیں دیکھتے؟ تمام فطرت جانداروں کی بجائے جیسا کے ہم انہیں دیکھتے ہیں ، کے ان کی خوب تشریح ہوئی ہے ایک ابتری اور پراگندگی کا شکار کیوں نہیں ہے؟ لیکن جیسا کے اس نظریے کے ذریعے لا تعداد شکلوں کو موجود ہونا چاہئیے تھا مگر ہم انہیں ان گنت تعداد میں زمین کی بالائی سطح کے اندر پاؤں گاڑے کیوں نہیں دیکھتے؟...... لیکن درمیانی خطے میں، جس میں زندگی کی درمیانی حالتیں پائ جاتی ہیں ہم درمیانی انواع کو ایک دوسرے میں پیوست کیوں نہیں پاتے؟ میں اک طویل عرصا تک اس مشکل کا سامنا کرتا رہا. حوالہ
ڈارون ایک ہی جواز پیش کر سکتا تھا جس کے زریعے اس کا جواب دیا جا سکتا تھا. وہ تھی یہ دلیل کے اب تک دستیاب فوسسل ریکارڈ ناکافی تھا.اس نے دعوا کیا کے جب فوسسل ریکارڈ کا مفسسل مطالع ہو جاے گا تو غایب اور گم کڑیاں مل جایں گی.
ڈارون کی اس پیشگوئی میں یقین رکھتے ہوے ارتقا پسند فوسسل کی تلاش کرتے رہے ہیں. انہوں نے دنیا بھر ميں انیسویں صدی کے وسط سے گم شدہ کڑیاں کھود کر نکلالنے کی کوشش شروع کر دی تھی. ان کی کوششوں کے باوجود اب تک کوئی عبوری شکلیں پردہ اخفا سے نکل کر سامنے نہیں آئیں. کھدائی کے ذریے نکلے گیے تمام فوسلز سے پتا چلتا ہے کے ارتقا پسندوں کے عقاید کے برعکس زندگی زمین پر اچانک نمودار ہوی اور یہ اپنی مکمل شکل میں تھی. ارتقا پسندوں نے اپنے اسی نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش کے دوران بے خبری میں اس نظریے کو موت کے حوالے کر دیا ہے.
ایک مشہور برطانوی قدیم حیاتیات DEREK V . AGAR ارتقا پسند ہونے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے. اس کا کہنا ہے:
فوسسل ریکارڈ ثابت کرتا ہے کے زندگی کی عبوری انواع کبھی موجود تھی ہی نہیں. ارتقا سرے سے ناپید رہا ہے اور زندگی اپنی تمام انواع میں علحدہ علیحدہ اور کامل سورتوں میں تخلیق کی گئی تھی. یہ سوال اٹھتا ہے کے اگر ہم فوسسل ریکارڈ کا مفسسل جایزہ لیں، خواہ وو مختلف درجے کی ہو یا جانداروں کی سطح پر ، ہم بار بار اس نتیجے پر پوھنچتے ہیں کے ارتقا کا عمل بتدریج نہیں ہوا بلکے ایک گروہ دوسرے کے بل بوتے پر اچانک دھماکہ خیز انداز میں پیدا ہوا. حوالہ
ایک اور نظریہ ارتقا پسند ماہر قدیم MARK CZARECKI کا تبصرہ کچھ یوں ہے:
" نظریہ ارتقا کو ثابت کرنے میں حائل برا مثلہ فوسسل ریکارڈ کا رہا ہے، یعنی صفحہ ہستی سے مٹ جانے والے جانداروں کے زمین کی ارضیاتی چٹانوں پر محفوظ شدہ نقوش. اس ریکارڈ نے ڈارون کے قیاس پر مبنی درمیانی تغیرات کے نشان کو کبھی ظاہر نہیں کیا. اس کے برعکس جاندار اچانک نمودار ہوتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور اس بے قاعدگی نے تخلیقی استدلال کے لیے آتش گیر مادے کا کام کیا ہے کے ہر جاندار کی تخلیق خدا نے کی ہے". حوالہ
انھیں گمشدہ عبوری کڑیوں کے مستقبل میں مل جانے کے اس انتظار سے بھی واسطہ تھا جو عبث اور بے سود تھا، جیسا کے گلاسگو یونیورسٹی کے قدیم حیاتیات کے ماہر ایک پروفیسر T. NEVILLE GEORGE نے اس بارے میں اظھار خیال کرتے ہوے کہا:
" فوسسل ریکارڈ کے دامن ہونے پر مزید معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی قطعا ضرورت نہیں. یہ کچھ حوالوں سے تقریبا حد دسترس سے باہر تک بڑا متمول ہے اور تلاش و دریافت یکجہتی و ہم آہنگی سے کہیں آگے نکل گئی ہے ....... تاہم فوسل ریکارڈ مسلسل زیادہ تر گمشدہ کڑیوں سے تشکیل پا رہا ہے. حوالہ
بینجامن مہر
No comments:
Post a Comment