Wednesday, February 22, 2017

insaan ya bandar ???




انسان یا بندر۔۔۔۔۔۔۔!


ملحدین نے یہ فرض کیا کہ انسان بندر نما مخلوق سے ارتقا پذیر ہوا ہے۔ مگر وہ بندر کہاں سے آیا؟ آسمان سے ٹپکا؟ یہ ایک اور مسلہ تھا جو ملحدین کو درپیش ہوا۔ اس کے حل کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ بندر نما بھی اپنے سے پہلے کسی مخلوق سے ارتقا پذیر ہوا۔۔۔ اور وہ کس سے؟ وہ اس سے بھی پہلے سے۔ آخر کار یہ ترتیب مٹی کے گارے میں جا کر ختم ہوئ۔ یعنی جانداروں کی ابتدا اس مٹی کے گارے، گہرے سمندریشورے سے ہوئ۔ اس سے نظریہ شورا کی بھی ابتدا ہوئ۔  یہ وہی ملحدین ہیں جو انسان کے مٹی سے بننے پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔۔۔! اور پھر آ گۓ خود اسی ڈگر پر۔ مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ہر جاندار دوسرے کا رشتے دار قرار پایا۔ بندر ہمارا کزن ہے تو کہیں دور کا چاچا ماما بھی ہو گا۔ یہ جو بکری اور مرغی بڑے شوق سے کھاتے ہیں یہ بھی دور کی خالہ یا پھوپھی ان کی لگتی ہیں۔ ہاۓ رے یہ کیسا ظلم ہوا اپنے ہی اجداد کو کاٹ کھایا۔ بقول شاعر

چاچُو ان کا چمپینزی ہے اور مامُوں ان کا بندر
دوُر کے رشتے داروں میں، موُلی اور چقندر

مگر یہ کلمُوہی ارتقائ ترقی ہماری سمجھ میں نہ پڑی۔ مثلاً ایک چیِل کی ہی مثال لیجیے۔ کہتے ہیں کہ چیِل نے شکاری پنجے بعد میں " اَپڈیٹ" کیے ، ارتقائ عمل سے ، مگر جب تک اس کے شکاری پنجے موجود نہ تھے تو کیا وہ پستول سے شکار کرتی رہی؟ اگر پنجے بعد میں آۓ تو کیا وہ اتنی دیر بھوکی رہی ہو گی؟ اور اگر پہلے ہی شکار کا انتظام کیا تھا تو پنجے اپڈیٹ کرنے کی کیا ضرورت؟ مگر اس سے بھی بڑا مسلہ یہ کہ ایک عقل و شعور رکھنے والے انسان کے اجداد کو لنگور بنا دیا۔۔! بقول شاعر

حضرت ڈارون حقیقت سے نہایت دوُر تھے
ہم نہ مانیں گے آباء آپ کے لنگور تھے

اسی لیے ملحدین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ انہیں انسان کہا جاۓ یا بندر؟ کیونکہ کہتے تو یہ اپنے آپ کو ارتقائ بندر ہیں مگر حقوق انسانوں والے مانگتے ہیں۔ جیسی نوع ہو گی حقوق بھی ویسے ملیں گے۔ کیونکہ جب کسی کو پتا چلتا ہے کہ یہ ارتقائ بندر ہیں تو وہ بھی پھر اسے بندروں والی عزت دینا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی اس انسان کی ڈگڈگی پر ناچتے ہیں تو کبھی اُس بندر کی۔ اس سے تنگ آ کر کچھ ملحد تو بابا ڈارون سے یہ فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ

بندر ہیں تو مِلے ہمیں ہمارا جنگل
آدمی ہیں تو مداری سے چھُڑایا جاۓ

مگر اب تو بہت دیر ہو چُکی۔ ارتقائ تبدیلی ایک مستقل تبدیلی ہے۔ میرے ایک دوست کے وسیع مطالعے کے مطابق اگر کوئ ملحد اب بندر بننا چاہے تو خود کشی تو کر سکتا ہے واپس بندر نہیں بن سکتا۔ اب بندر والا تو آپشن رہا نہیں مداری سے چھُڑانے کا بندو بست ہو سکتا ہے۔ یہ بھی تبھی ممکن ہے جب یہ بندروں والی حرکتیں چھوڑ کر انسانوں والی حرکتیں کرنے لگیں۔ مگر یہ نہایت مشکل ہے کیونکہ ان کے جسم کا تو ارتقا ہو چکا دماغ کا نہیں۔

ارتقا سے بھی آدمی نہ ہوۓ
الہی۔۔! یہ کیسے بندر ہیں

اس لیے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کو بہت جلد جنگلوں میں اپنی آبادی بسانی پڑے گی۔ انسانوں کے درمیان تو یہ رہنے سے رہے۔ اپنے آپ کو بندر سمجھنے سے ان کے نظریات بھی یکسر بندروں والے ہو گۓ۔ کھاؤ، پیو ، عیش کرو۔۔۔! یہ ان کا موقف اور ذندگی کا مقصد ٹھہرا اور انسانوں کی خصلتیں ان میں سے جاتی رہیں۔ اقبال رح نے نظم تو مسلمانوں کے لیے کہی تھی مگر تھوڑی سی تبدیلی سے ملحدوں کے اوپر فٹ بیٹھتی ہے۔

اے ڈارون یہ تیرے پراسرار بندر
جنہیں تونے بخشا ہے زوق جگ ہنسائ
دو نیم جن کی ٹھوکر سے اپنا ہی تن من
سمٹ کر شیطان جن کی خصلت سے رائی
ماں بہن سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے یہ لذتِ بے حیائی
عورت ہے مقصودِ مطلوبِ ملحد
یا تھوڑے سے ڈالر پھر زَن تک رسائ

ایک خاتون ملحدہ لکھتی ہیں ، "میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایٹمز کا ایک مجموعہ ہوں جو ایک وقت کے لئے اکٹھا ہوا ہے"۔ افسوس کہ ملحدین نے اپنے آپ کو زرات کے بے ہنگھم مجموعے اور اندھا دھُندھ کَٹھ جوڑ سے زیادہ نہ پہچانا۔۔۔! یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ایٹموں کے اندر تو شعور نہیں مگر ہمارے اندر شعور ہے، ایٹمز کے اندر ارادہ نہیں ہمارے اندر ارادہ ہے، ایٹمز میں زندگی نہیں ہم میں زندگی ہے۔ ۔۔۔! جب یہ خود کو نہ پہچان سکے تو خدا کو کیونکر پہچانتے۔۔۔! کیا علم و حکمت سے عاری، بے جان فطرت نے انہیں بنایا ہے؟ پہلے خود کو تو پہچان لو پھر خدا کو بھی پہچان لو گے۔۔۔! و فی انفسکم افلا تبصرون۔۔۔!

بجز خدا میں تو ملبے کا اِک سمندر ہوں
ہیں کہتے وہ کہ میں بس ارتقائی بندر ہوں

گر ارتقاء یہ حقیقت ہے، تو یہ بتلاؤ
میں آدمی کیوں ہوں!؟ کیوں نہیں چقندر ہوں

نہیں ہوں میں کوئی خودرُو کہ یہ نہ سوچوں اب
کدھر سے آیا، گیا، موج زا سمندر ہوں!؟

اگر یہی ہے تو پھر کیوں ہے تشنہ کامی سی
قصد ہے کیا، کیونکر، کیوں جہاں کے اندر ہوں!؟

طلسم خانۂ ہستی کی نبض گویا ہے
'میں شاخ و گل میں نہاں معنیِ سمندر ہوں'

مری جو تلفیِ حق ہوئی اس کا بدلہ اب
میں کیسے لُوں!؟ کہ میں دارا، نہ میں سِکندر ہوں

نہیں ہے رُوح حقیقت، تو بول اے 'ہاتف'
لگے ہے کیوں کہ مقیّد جسَم کے اندر ہوں!؟

( بنیامین مہر)

(شعرا۔ اکبر الہ آبادی، مہران درگ، ذہین احمق آبادی ہاتف، بذات خود)


No comments:

Post a Comment